Sunday, September 11, 2011

Dard Ka Kamra Alag Hota Hai


درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے

ہم کہ جب بھی کسی بھولی ہوئی دہلیز سے ٹھوکر کھائیں

درد کے کمرے میں جا گرتے ہیں

نت نئے دھوکے میں مصروف رکھا ہے خود کو

ہم سمجھدار بھی، پاگل بھی بنے ہیں اکثر

ہم ہنسے بھی ہیں اداسی بھی بہت جھیلی ہے

عشق کے شک میں بتائے ہیں بہت دن ہم نے

دل کو جھانسے بھی دیے روز بہت رونق کے

روح کو رنگ دیے ہیں لیکن

وہ جو آنسو کبھی آباد ہوا تھا نا۔۔۔۔۔ نصیبوں کی کسی بستی میں

کھینچ لاتا رہا واپس اسی کمرے میں ہمیں

یہ الگ کمرہ کسی کھوہ کی مانند بہت گہرا ہے

اک عجب رنگ کی خاموشی ہے دیواروں پر

کونوں کھدروں میں بہت شور ہے لاچاری کا

فرش پر ہجر کا غالیچہ بچھا رکھا ہے

چھت پہ جالے سے لگے ہیں کسی بیماری کے

دکھ کے آنگن کی طرف

مین دروازے کے ڈر کی جانب

درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے

ہم جہاں آتے ہیں کمرہ بھی چلا آتا ہے

ہم چلے جائیں تو کمرہ بھی چلا جاتا ہے

اس کے باسی کے لیے

،خود فریبی سے بھی کچھ فرق نہیں پڑنےک

No comments:

Post a Comment