مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں مگر اے حسینہء نازنیں
تو دور ہو مجھ سے اگر کبھی، تجھے ڈھونڈتی ہو نظر کبھی
تو جگر میں اٹھتا ہے درد سا میرا رنگ رہتا ہے زرد سا
مگر اے حسینہء نازنیں مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں
مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں مگر اے حسینہء نازنیں
تو اگر ہو مجمع عام میں، کسی کھیل میں کسی کام میں
تو میں چھپ کہ دور ہی دور سے تجھے دیکھتا ہوں غرور سے
مگر اے حسینہء نازنیں مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں
مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں مگر اے حسینہء نازنیں
تو اگر کہے مجھے یہ کبھی، مجھے لادو لعل و جوہر کبھی
تو میں دور دور کی سوچ لوں فلک کے تارے بھی نوچ لوں
یہ ثبوت ضبط کمال دوں، تیرے پاؤں میں انہیں ڈال دوں
مگر اے حسینہء نازنیں مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں
مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں مگر اے حسینہء نازنیں
No comments:
Post a Comment